چائے

مجھے چائے سے محبت رسما نہیں ہے۔ نہ ہی اس لیے کہ ہمارے علاقے کے لوگ چائے کے شوقین ہیں۔ میں تو پہلے کسی کے گھر مہمان ہو کر بھی نہیں پیتا تھا۔ اور اب چائے سے بڑھ کر کچھ اچھا ہی نہیں لگتا۔ میری اور چائے کی بس اپنی رام کہانی ہے۔ یہ میرے نئے سفر کی رفیق ہے ۔ہم دونوں نے ایک ساتھ سفر کی شروعات کی تھیں۔ جب یہ سوال پیدا ہوا کہ میرا دکھ سکھ میں ساتھ کون دے گا؟ تو اس چائے کی پیالی نے ہی گرمجوشی سے میرے لبوں کو چھو کر ہاں بھری تھی۔ ہماری دوستی اب بڑی پرانی ہے ۔میں تو اپنے راز، اپنی کہانیاں اسے سنانے کا عادی ہو چکا ہوں ۔ دسمبر کی یخ بستہ شاموں اور جنوری کی ٹھٹھرتی راتوں میں جب میں چائے کے کپ کے قریب منہ لا کر سرگوشی کرنے لگتا تھا تو اس میں پڑی چائے کہ اوپر جمی تہہ میں پہلے ایک ارتعاش پیدا ہوتا تھا۔ ایسے جیسے کسی انسان کے رونگھٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ اور پھر جب چائے خاموشی سے میری بپتا سنتی تو آہ بھرتی اور یوں اسکی آہ دھویں کی شکل اختیار کرتی۔ یہی چائے میری رازدار بھی ہے کہ جب میں ڈائری میں کچھ باتیں قلمبند کرتا تھا تو چائے دیر تک خاموشی سے بس میرا انتظار کرتی تھی، چپکے سے میری تحریر بھی شاید پڑھ رہی ہوتی۔ اور جب میں اسے ہاتھ لگاتا تو اس کا وجود بے جان جسم کی طرح ٹھنڈا پڑ چکا ہوتا تھا۔  اب اکثر کسی ہجوم میں ، یا کسی خاص موقعے پر چائے کے کپ کو بڑے خلوص سے تھام کر اپنے سامنے رکھتا ہوں، ایسے جیسے کوئ اپنے کسی عزیز سے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرتا ہے ۔۔تو لوگ بڑی عجیب نظروں سے گھورتے ہیں۔ وہ تو چائے سے اڑتے بھاپ کو فقط گرم دھواں سمجھتے ہیں مگر وہ کیا جانے میری اور چائے کی رفاقت۔۔ انھیں کیا خبر کہ چائے کو بتائ ہوئ کتنی کہانیاں، خوشیاں اور جانے کتنی یادیں اس چائے کی نکلتی آہوں میں دھواں بن کر رقص کرتی ہیں۔۔

بقلم : آنے رملیہ
بمورخہ 5ستمبر 2020





Leave a comment

Design a site like this with WordPress.com
Get started